کس طرح کہیں کہ آساں ہے یہ زندگی
ہر غم کے بعد اک نیا غم ملتا ہے
دانائی نہیں رعنائی، ہے عجب گفت و شنید
ہر لفظ سے بےحیائی کو جنم ملتا ہے
میخانے میں محفلیں، ہیں قحبہ خانے رواں
نہیں مسجد میں بندہ جہاں رب کا کرم ملتا ہے
حد کی دیواروں کو توڑنے کے لئے
ہر کسی کا نیا عزم ملتا ہے
ہم جس بھی فلک پی گئے ہوئی اشکبار آنکھیں
خالد اب قسمت کا ستارا مدھم ملتا ہے