کس قدر عاجزی سے ملتا ہے
بازی گر جب کسی سے ملتا ہے
جس میں توقیر ہو محبت کی
دل ہمیشہ اسی سے ملتا ہے
آسماں پر بھلے وہ جا پہنچے
آدمی خاک ہی سے ملتا ہے
بانٹ دیتا ہوں دوستوں میں سب
جو بھی کچھ آگہی سے ملتا ہے
لوگ پتھر نچوڑ ہیں باسط
عطر تو پھول ہی سے ملتا ہے