کس قدر نادان تھے ہم خواہشوں کے دور میں
چاہتوں کے خواب دیکھے نفرتوں کےدور میں
آسماں کو ہم نے جانا اِس زمیں کا چارہ گر
اور کچے گھر بنائے بارشوں کے دور میں
ہم مکیں تھے فرش کے اورآرزو تھی عرش کی
کھیلنے کو چاند مانگا حسرتوں کے دور میں
ساتھ کزرے ہیں ہمارے ماہ جبیں کے روز و شب
کیسے کیسے لطف اُٹھائے قربتوں کے دور میں
ایک تیرے عشق میں ہم نے پائے دو جہاں
تاجور خود کو ہی جانا غربتوں کے دور میں