کس کس طرح سے دل کو شکیبا نہیں کیا
لیکن ترے سلوک کا چرچا نہیں کیا
تم سے بچھڑ کے ہم سے بڑی بھول ہو گئی
ہم سے بچھڑ کے تم نے بھی اچھا نہیں کیا
دنیا نے خود ہی لاکھ فسانے بنا لئے
ہم نے تمہارے نام کو رسوا نہیں کیا
کھائے فریب ہم نے مروت میں با رہا
لیکن کسی سے بھی کبھی شکوہ نہیں کیا
چاہت میں تیری جان لٹانے کے باوجود
ہم نے کبھی وفاؤں کا دعوی' نہیں کیا
تنگدستیوں میں زندگی ہم نے گذار دی
لیکن کبھی ضمیر کا سودا نہیں کیا
جس نےبھی اعتبار کیا ہم پہ زیست میں
ہم نے اُس اعتبار سے دھوکا نہیں کیا
عذراؔ ہمیں اسی سے وفاؤ ں کی آس ہے
پورا وفا کا جس نے تقاضہ نہیں کیا