کسی راہگذر کی آنکھ سے اشارہ بھی کوئی ہوتا
Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithiکسی راہگذر کی آنکھ سے اشارہ بھی کوئی ہوتا
 تمہارے ابلاغ تھے کہ ہمارا بھی کوئی ہوتا
 
 سبھی پیچدار راہوں نے دشوار کیا ہے بہت
 اس سے پہلے الجھنوں کا اندازہ بھی کوئی ہوتا
 
 یہ مدہوشی بھی تو نافرمان ہوکے گذری
 کاش ان موجوں کے لئے کنارہ بھی کوئی ہوتا
 
 کئی دنوں سے وسعتیں سنسان سی لگتی ہیں
 ان آزاد گلیوں کا کوئی بنجارہ بھی کوئی ہوتا
 
 میری مجھ میں تو عجیب برتری ہے لیکن
 اُن بلندیوں کا کہیں شمارہ بھی کوئی ہوتا
 
 بھری دنیا میں تنہا کٹ گئی رعنایاں
 ملن کی حق وراثت سے تمہارا بھی کوئی ہوتا
 
  
More Sad Poetry






