کسی راہگذر کی آنکھ سے اشارہ بھی کوئی ہوتا

Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithi

کسی راہگذر کی آنکھ سے اشارہ بھی کوئی ہوتا
تمہارے ابلاغ تھے کہ ہمارا بھی کوئی ہوتا

سبھی پیچدار راہوں نے دشوار کیا ہے بہت
اس سے پہلے الجھنوں کا اندازہ بھی کوئی ہوتا

یہ مدہوشی بھی تو نافرمان ہوکے گذری
کاش ان موجوں کے لئے کنارہ بھی کوئی ہوتا

کئی دنوں سے وسعتیں سنسان سی لگتی ہیں
ان آزاد گلیوں کا کوئی بنجارہ بھی کوئی ہوتا

میری مجھ میں تو عجیب برتری ہے لیکن
اُن بلندیوں کا کہیں شمارہ بھی کوئی ہوتا

بھری دنیا میں تنہا کٹ گئی رعنایاں
ملن کی حق وراثت سے تمہارا بھی کوئی ہوتا

 

Rate it:
Views: 402
19 Jan, 2011