کسی غریب کو جیسے خراج مل رہا ہے
خدا کا شکر ہے اب تو اناج مل رہا ہے
ثواب کا کام کسی اب امیر نے کیا ہے
کسی غریب کی بیٹی کو داج مل رہا ہے
خوشی کی آج گھڑی آئی ہے ذرا دیکھو
غریب کو اب تو کوئی کام کاج مل رہا ہے
عتاق جب سے ملی ہے بدل گئے لمحے
کہ ایسے لگتا ہے سارا سماج مل رہا ہے
کروں گا میں بھی فروکش کبھی ادھر سے ادھر
کسی علاقے کا مجھے بھی تو راج مل رہا ہے
اسے تو کرنی پڑی ہے لگن سے ہی مشقت
یہ ایسے ہی تو نہیں تخت و تاج مل رہا ہے
خوشی مناؤں گا شہزاد میں بھی اب جاکر
مرا تو یار مجھے تنہا آج مل رہا ہے