ہمیں بھی آج سے کسی پہ اعتبار نہ رہا
دل پر جو کبھی تھا وہ اختیار نہ رہا
ہر بار ٹوٹنے پر دل جوڑتے رہے
دل جوڑنے کا کھیل بار بار نہ رہا
دل بد گمانیوں سے آزاد رہتا تھا
یہ پہلے کی طرح ایماندار نہ رہا
دعوے کی حد تک یاروں سے ساتھ نبھایا
مشکل میں میرے ساتھ کوئی یار نہ رہا
وقت عروج بزم یاراں سجی رہی
وقت زوال کوئی بھی دلدار نہ رہا
عظمٰی نے جنہیں دل میں چاہت سے بسایا
دل کے مکینوں کو بھی ہم سے پیار نہ رہا