اب ایک تسلسل ہے اب ایک روانی ہے
اب رواں دواں اپنے جیون کی کہانی ہے
سمندروں کی لہریں سر اٹھا کے کہتی ہیں
سکوت بحر میں طوفان ہے طغیانی ہے
برف پگھل کے اپنا راستہ بناتی گئی
جمود نے بھی تحرک کی قدر جانی ہے
حیات مختصر اور مستقل قیام کی باتیں
کہ زندگی کی یہ ڈگر تو آنی جانی ہے
طویل عمر پانے والے بھی یہ کہتے رہے
بڑی ہی مختصر یہ اپنی زندگانی ہے
حیات خضر پانے والوں کو بھی جانا ہے
آخر حیات خضر کو بھی ہونا فانی ہے
وہ دیکھو وادی جنوں کی ہواؤں کا رخ
کہ اس کی چال ڈھال آج بھی طوفانی ہے
سنہری جھیل میں رنگین تتلیوں کی شبیہ
ذرا قریب سے دیکھو بڑی سہانی ہے
خودی اور بیخودی کے درمیاں تنہا سی اک لڑکی
کوئی کہتا ہے دانا ہے کوئی کہتا دیوانی ہے
کوئی تحریک نہ سفر، نہ کوئی جستجو
اگرچہ اپنی زندگی زمانی ہے مکانی ہے
پہلے ہاتھ ملانا پھر نظریں چرا کے چل دینا
ادا جدید سہی رسم یہ پرانی ہے
یہ کیا دستور ہے دنیا میں اہل شوق کا عظمٰی
کسی پہ دل لٹانا ہے کسی پہ جاں لٹانی ہے