کسی کی یاد نے اتنا ستایا
بیاں کرتے کلیجہ منہ کو آیا
گریباں چاک، آنکھیں نم، جگر خوں
تری فرقت نے دیوانہ بنایا
کہاں کا عزم ہے ، پھر کب ملیں گے
دم رخصت نہ اتنا بھی بتایا
سکوں ، صبر و قرار، آرام و تسکیں
تری فرقت میں سب ساماں لٹایا
فرشتوں سے نہ اٹھا تھا جو اے دل !
اک بار امانت کیوں اٹھایا ؟
توقع جس سے تھی دلداریوں کی
اسی نے دل کو ٹکڑے کر دکھایا
کروں کس سے گلہ ، کس سے شکایت
مقدر میں جو لکھا تھا ، وہ پایا
نہ جانے غم کے بادل کب چھٹیں گے
ملے گا کب تری زلفوں کا سایا
کسی کی نرگسی آنکھوں کا صدقہ
جمال یار آنکھوں میں سمایا
شب تاریک میں سر خوش نے یارو
سر راہے چراغ دل جلایا