کسی کی یاد نے اسقدر رلایا ہے
اب کے ساون آنکھوں میں اتر آیا ہے
آبیاری کریں گے لہو سے اپنے
غم کا پودا دل کے آنگن میں لگایا ہے
سرخ پھولوں نے آگ لگائی ہے درختوں پر
جانے کیوں بہار نے اپنا دامن جلایا ہے
روتی رہی شبنم رات بھر پھولوں پہ
لگتا ہے قدرت کا بھی دل بھر آیا ہے
کسی تعاقب میں خیال اتنی دور نکل گیا
گویا دشت و صحرا پھر کے آیا ہے
بار بار انجام سے ڈراتے ہیں لوگ
بارہا ہم نے دل کو سمجھایا ہے