کسی کے ہجر کے سائے میں آ کھڑا ہوں میں
عجیب دکھ ہے مرا چھاؤں میں جلا ہوں میں
ابھی تو سانس ہے باقی ذرا بچا ہوں میں
وہ کب تلک نہیں آئے گا دیکھتا ہوں میں
میں سر پہ گٹھری غموں کی اٹھائے پھرتا ہوں
اب اہل علم کہیں گے کہ سر پھرا ہوں میں
بس اس لئے کہ ترا حوصلہ نہ ماند پڑے
بس اس لئے ہی تو کہتا ہوں اب نیا ہوں میں
بس اس لئے کہ مجھے کہہ کے سوچنا نہ پڑے
ہمیشہ سوچ سمجھ کر ہی بولتا ہوں میں
اب اس سے قبل تعارف میں اپنا پیش کروں
حریف پہلے بتا دیتے ہیں عطاؔ ہوں میں