اس کی نگاہ التفات سے
پگھل پتھر گیے انا کے
بولا تو قبائے احساس جل گئی
۔.................
میں نے رسوا کیا ہے تم کو!
میں تو چپ کے حصار میں ہوں
یہ شرارت آنکھوں کی ہے
.................
اسیری زلف آفت جان سہی
مےکدے سے آئی صدا
دین دیتا نہیں اس سے نجات
.................
درد کے سمندر میں
تلاش لیتے ہیں لوگ
تنکے نجات کے
.................
کشکول گدائی تھامنے سے پہلے
وہ زندگی کی باہوں میں تھا
اب چلتا پھرتا ویرانہ ہے
1-6-1995
ماہنامہ تجدید نو لاہور
جولائی 1995
لوگ تعوذ کہتے ہیں اسے دیکھ کر
سکے چلتے نہیں بخل کے
حسن کے بازار میں
.............
ترک الفت میں بھی اک سلیقہ تھا
دوڑے آئے غیر بھی
ان کی ہر صدا پر
.............
نظر ملنے کے لمحے چھپا رکھے ہیں
احساس کی بوتل میں
سزا کے لیے تو گواہی چایے
............
احساس حسن ہوتا گلاب کو
یوں وہ بےحرمت نہ ہوتا
امیر شہر کےقدموں میں
..............
صدائیں اب کون سنے گا
ترے حسن کے خمیر کی ریا نے
ڈس لیا ہے اہل وفا کو
............
دل کے پار دیوار سی بنی ہے
یہ پتھر تو وہی ہیں
آئے تھے جو محبت کے جواب میں
...........
قیس کا دعوی عشق
اہل نظر کیوں مان لیں
عشق میں اس کے کب اعتدال تھا
.........
ذرا وحشت دل تو دیکھو
جب جس نے بہلایا
ساتھ ہو لیا
............
کھو کر جوانی کے خدوخال میں
بھولا نہیں میں
باپ کی آنکھ میں لکھے خط کو
..........
تم تو مجرم وفا ہو
سمندر کی تہوں میں بھی
کھوج لیں گے تم کو کھوجنے والے
27-9-1995