کمال ہے کمال ہے ہم پہ کیا زوال ہے
جلے تو راکھ اٹھے تو اک سوال ہے
داخل جگر نکل کر آنکھوں سے جو گرے
پی لو تو آنسوں لکھو تو درد کی تال ہے
ہم پہ بیتی کیا جانیں وقت کے اندھے
سکوں خاطر فقیر ٹھہرے کیا فن فنکار ہے
ہزار غم پی کر زندہ رہےتو پاگل ہم
درد جگر جو سنایاکمبخت شاعر ہے
مرحله گام کتنے مجازات سے گزرے ہم
روکے تو بے وفا جو چلے تو وقت گزرا ہے
کتنے سکون میں رہتے ہیں غزلوں کے شاہکار
برای صلح دعا کن نفیس کوئی مر رہا افکار ہے