کنکر سے مری سمت اچھالے بھی نہیں ہیں
اب کام ترے عشق نرالے بھی نہیں ہیں
اس عید پہ نطروں سے کہاں عید ملی ہے
اس عید پہ کمبخت اجالے بھی نہیں ہیں
حیراں بھی نہیں آنکھ میں پھیلا ہوا کاجل
ہونٹوں پہ محبت کے حوالے بھی نہیں ہیں
کیوں دور وہ رہتے ہیں اجالوں کے نگر سے
وہ لوگ جو من کے ابھی کالے بھی نہیں ہیں
ہاتھوں پہ مرے رنگ حنا بھولنے والے
پاؤں میں ترے ہجر کے چھالے بھی نہیں ہیں
ملنے کا کہاں عید پہ امکان ہے وشمہ
جب راستے چاہت کے سنبھالے بھی نہیں ہیں