....نذرِ غالب .....
کوئی بھی میرا ہمنوا نہ ہوا
،، درد منت کش دوا نہ ہوا،،
اس سے میرا نہیں کوئی شکوہ
جو کبھی بھی مرا نہ تها نہ ہوا
کیا ترے دورِ حکمرانی میں
کوئی جاں سوز واقعہ نہ ہوا
یوں سمجھ لو خدا کے ہونے کو
ہو بشر کوئی بھی خدا نہ ہوا
میرے اپنو یہ جانتا ہوں میں
کیا ہوا تم سے اور کیا نہ ہوا
رہبروں کا گلا کرے وہ کیا
رہزنوں سے بهی جو خفا نہ ہوا
جائزہ لے رہا ہوں میں اپنا
کام مجھ سے کوئی بھلا نہ ہوا
پیار میں تیرے نور دلکش بهی
کس مصبیت میں مبتلا نہ ہوا