کوئی تاثیر تو ہے اس کی نوا میں ایسی
روشنی پہلے نہ تھی دل کی فضا میں ایسی
اور پھر اس کے تعاقب میں ہوئی عمر تمام
ایک تصویر اڑی تیز ہوا میں ایسی
جیسے ویران حویلی میں ہوں خاموش چراغ
اب گزرتی ہیں ترے شہر میں شامیں ایسی
آنکھ مصروف ہے زنبیل ہنر بھرنے میں
کس نے رکھی ہے کشش ارض و سما میں ایسی
الٹی جانب کو سفر کرنے لگا ہر منظر
سنسنی پھیل گئی راہ فنا میں ایسی
کہکشائیں بھی تحیر سے نکل سکتی نہیں
چھوڑ آیا ہوں کئی نظریں خلا میں ایسی
یہیں آنا ہے بھٹکتی ہوئی آوازوں کو
یعنی کچھ بات تو ہے کوہ ندا میں ایسی