کوئی تو مشورہ دےتو نے کچھ سنا کہ نہیں
میں ختم کر دوں محبت کا سلسلہ کہ نہیں
اے روح شاءر مزدور دستگیری کر
بتا کہ ہار دوں میں ءزم و حوصلہ کہ نہیں
اگرچہ اپنی بھی سانسیں اکھڑ گئیں لیکن
ہوا کہ زور پہ تیرا دیا جلا کہ نہیں
بلا سے، ختم ہوا لہو رگِ جاں کا
مگر وہ دیکھ، سرِ شاخِ گُل کھُلا کہ نہیں
میں اُس کو دیکھ کہ مسرور و شادماں ہوں معین
وہ مُجھ سے مِل کے خُدا جانے خوش ہوا کہ نہیں