اب تو لب پہ شمیم دعا نہیں آتی
دریچے کھلے رکھتا ہوں صبا نہیں آتی
سوچتا ہوں کہ مانگ لوں اسکو خدا سے
مگر کیا کروں مجھے کوئی دعا نہیں آتی
پہلے تو آجاتی تھی وہ بن بلائے
اب مجھے ملنے وہ بےوفا نہیں آتی
ہر شام جو پکارا کرتی تھی بام سے
اب کانوں میں اس کی ندا نہیں آتی
میں ریت کے محل بناتا رہتا ہوں اصغر
اب انہیں ڈھانے کو باد صبا نہیں آتی