کوئی زنجیر ہو اس کو محبت توڑ سکتی ہے
جدھر چاہیں یہ باگیں زندگی کی موڑ سکتی ہے
محبت روک سکتی ہے کسی گِرتے ستارے کو
کسی جلتے شرارے کو، فنا کے استعارے کو
یہ چکنا چور آئینے کی کرچیں جوڑ سکتی ہے
کوئی زنجیر ہو اس کو محبت توڑ سکتی ہے
محبت پر کسی بھی رسم کا پہرا نہیں چلتا
کسی آمر، کسی سلطان کا سکّہ نہیں چلتا
یہ ہر زندان کی اندھی سلاخیں توڑ سکتی ہے
کوئی زنجیر ہو اس کو محبت توڑ سکتی ہے
یہ جب چاہے کسی بھی خواب کو تعبیر مل جائے
کسی رستے میں رستہ پوچھتی، تقدیر مل جائے
سمے کے تیز دھارے کو یہ پیچھے چھوڑ سکتی ہے
کوئی زنجیر ہو اس کو محبت توڑ سکتی ہے