کوئی سبیل نہیں ہے قضا کے ٹلنے کی
سلگ رہا ہوں، دعا مانگتا ہوں جلنے کی
وہ ایک عمر میرے ساتھ ساتھ چلتے رہے
مجھے خبر نہ ہوئی راستوں کے چلنے کی
ان آنسوؤں کو اگر خاک ہی میں ملنا تھا
تو کیا پڑی تھی میری آنکھ سے نکلنے کی
بس ایک دل ہی نہ مانا وگرنہ سارا بدن
گواہی دیتا رہا زندگی کے ڈھلنے کی
وہ خود بھی فیصلے کرتا تھا جلد بازی میں
مجھے بھی بعد میں عادت تھی ہاتھ ملنے کی
مبادہ، تجھ کو کسی طرح کا تاسف ہو
جو گر پڑے اسے مہلت تو دے سنبھلنے کی
میں اس سے ترکِ تعلق کی ٹھان لیتا مگر
اسے تو ضد تھی میری آستین میں پلنے کی