کوئی فریاد تیرے دل میں دبی ہو جیسے
تُو نے آنکھوں سے کوئی بات کہی ہو جیسے
جاگتے جاگتے اک عمر کٹی ہو جیسے
جان باقی ہو مگر سانس رُکی ہو جیسے
ہر ملاقات پہ محسوس یہ ہوتا ہے
مُجھ سے کچھ تیری نظر پُوچھ رہی ہو جیسے
راہ چلتے ہوئے اکثر یہ گماں ہوتا ہے
وُہ نظر چُھپ کے مجھے دیکھ رہی ہو جیسے
ایک لمحے میں سمٹ آئے یہ صدیوں کا سفر
زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے
اس طرح پہروں تجھے سوچتا رہتا ہوں
میری ہر سانس تیرے نام لکھی ہو جیسے