کوئی ٹوٹی ہوئی کشتی کا تختہ بھی اگر ہے لا
ابھی ساحل پہ ہے تو اور پیش از مرگ واویلا
اندھیری رات سے ڈرتا ہے میر کارواں ہو کے
اندھیرا ہے تو اپنے داغ دل کی روشنی پھیلا
نہ گھبرا تیرگی سے تو قسم ہے سنگ اسود کی
کہ تاریکی ہی میں سوئی ہے شام گیسوئے لیلا
مذاق شادی و غم تا کجا اے خاک کے پتلے
جو ان دونوں سے بالاتر ہوں ایسی بھی کوئی شے لا
شراب عصر نو میں بے خودی ہے نے خودی ساقی
جو تو نے آج سے پہلے پلائی تھی وہی مے لا
من انداز قدت را می شناسم مرد افرنگی
کہ کپڑے صاف ہیں لیکن بدن ناپاک دل میلا
کسی کا ناز حسن اور اے شفیقؔ اپنا یہ کہہ دینا
کہ قیمت میں اگر دل کے برابر ہو کوئی شے لا