کوئی ہمیں مطلوب ہے اور کوئی ہمارا طالب ہے
کسی کو ذات کی جستجو کوئی وجود کا طالب ہے
دوستی عداوت ہو نفرت کہ محبت اپنے یا بیگانے
سارے جذبوں اور رشتوں پہ عشق ہمیشہ غالب ہے
من کی آزادی کا خَوگر ہر کوئی ہوتا ہے لیکن
آزاد نہیں ہونے دیتا روحوں سے لِپٹا قالب ہے
اپنے مقصد کی خاطر تاریخ رقم کرنے والوں میں
اور بڑے لوگوں کی طرح ایک نام حبیب جالب ہے
ہم نے بھی عظمٰی اپنے من سے پوچھا کئی بار یہی
کیا تیرا مطلوب ہے آخر تو کس شے کا طالب ہے
کوئی ہمیں مطلوب ہے اور کوئی ہمارا طالب ہے
کسی کو ذات کی جستجو کوئی وجود کا طالب ہے