گھر چھوڑنے لگے تو کوئی یاد آگیا
آنسو نکل پڑے تو کوئی یاد آگیا
گھر کو بنانے والا تو کوئی مٹی میں سو گیا
حصّے جو بٹ گئے تو کوئی یاد آگیا
جن کیلئے ٹھکرا دیا وہی
ٹھکرا کر چل دئیے تو کوئی یاد آگیا
دن بھر تو اسکے یاد سے غافل رہے مگر
جلنے لگے دئیے تو کوئی یاد آگیا
اب اس کے شہر جانے کا سوچے بھی کس طرح
جب پاؤں کٹ چکے تو کوئی یاد آگیا
اس نے بھی تو کئے تھے، مگر نبھائے نہیں
وعدے کبھی کئے تو کوئی یاد آگیا