کون جانے کس گلی میں شام ہو جائے
کیا خبر کب یہ زندگی کب تمام ہو جائے
سوچتے ہیں کب تلک کل تک اٹھا رکھیں
کیوں نہ حیات آج تیرے نام ہو جائے
کیوں کہیں کیا جلدی ہے ہو جائے گا
کل کا ہوتا کیوں نہ آج کام ہو جائے
جام سے اے ساقی مے ہر روز پیتے ہیں
آج تیری آنکھوں سے بھی جام ہو جائے
عظمٰی یہ داستان بھی اب عام ہو جائے
اس داستاں کا چرچہ سر عام ہو جائے