کون کتنے رہے ہیں آنکھوں میں
نقش کھرچے گئے ہیں آنکھوں میں
سوچتا ہوں کہ کون ہیں وہ لوگ
جن کے چہرے رُلے ہیں آنکھوں میں
کیوں نہ ہو دِل لہو بھی سینے میں
خونی منظر پڑے ہیں آنکھوں میں
ہر طرف جن کو ڈھونڈتے تھے ہم
وہ بھی اب دھندلے ہیں آنکھوں میں
چل تو پڑیے مگر کہاں جائیں
راستے مٹ چکے ہیں آنکھوں میں
کوئی منزل نہیں ہے اب میری
فقط کچھ راستے ہیں آنکھوں میں
دور جاتے ہوئے انہیں دیکھ کہ
چاقو سے چل رہے ہیں آنکھوں میں
اے مجھے نیند کیسے آئی گی
خواب تو جل گئے ہیں آنکھوں میں
اگر، جنید عطاری