کون ہے میرا خریدار نہیں دیکھتا میں
دھوپ میں سایۂ دیوار نہیں دیکھتا میں
خواب پلکوں پہ چلے آتے ہیں آنسو بن کر
اس لئے تجھ کو لگاتار نہیں دیکھتا میں
تیرا اس بار مجھے دیکھنا بنتا ہے دوست
اتنی امید سے ہر بار نہیں دیکھتا میں
کب تلک تجھ کو یوں ہی دیکھتے رہنا ہوگا
زندگی جا تجھے اس بار نہیں دیکھتا میں
وہ کوئی اور ہیں جو حسب و نسب دیکھتے ہیں
میں محبت ہوں مرے یار نہیں دیکھتا میں
ہائے وہ لوگ جو بس دیکھتے رہتے ہیں مجھے
جن کی جانب کبھی اک بار نہیں دیکھتا میں
غار سے نکلی ہوئی روشنی پرسہ تو کر
آ مجھے دیکھ ہوں بیمار نہیں دیکھتا میں