Add Poetry

کُتب خانہ کو مُردہ خانہ بنا دیا

Poet: purki By: m.hassan, karachi

تعلیم کیلئے جس پلاٹ کا سودا ہوا تھا
لوگوں نے اس پلاٹ کو لنگر خانہ بنادیا

نونہالوں کی تعمیر کیلئے جو کُتب خانہ بناتھا
لوگوں نے اس کُتب خانہ کو مُردہ خانہ بنا دیا

اِن سات دھائیوں میں لیڈروں نے قوم کو کیا دیا
افسوس! نئی نسل کو ہیرونچی بنا دیا

سالوں سال سے قوم جن لوگوں کی گرفت میں ہے
اِن ٹھیکہ داروں نے قوم کو مکمّل جاہل بنا دیا

خود تو شکار کرکے اپنا وقت گزار گئے
لیکن معصوم ذہنوں کو شکاری بنا دیا

شکوہ کریں تو کس سے کریں اور کہاں کرے
اس قوم کے لیڈروں نے ہی قوم کو رُلا دیا

انسانیت کے دشمنوں سے تم دور رہو پُرکی
کتنے گھروں کو ان ظالموں نے نشانہ بنادیا

شادی بیاہ میں سادگی کا خاص خیال رکھو
مگر ہم نے اس فرمان کو ہی دل سے بُھلا دیا

اسلام میں ریاکاری ایک سنگین جرم ہے
افسوس! ہم نے اسے اپنی عادت بنا لیا

عمر بھر کی پُونجی ایک ہی دن میں لٹاکر
افسوس کہ ہم شیطانوں کے باتوں میں آگیا

قرآن کی واضح آیت ہے اور حدیث رسول بھی
اسراف کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قراردیا

اللہ رسول کا حکم ہے کہ دکھاوے سے باز آؤ
جب حد سے گزر گیا تو انہیں جڑ سے مٹا دیا

جو قوم سوچنے سمجھنے کو ہرگز نہ ہو تیار
اُس قوم کی نسلوں کو اوروں کا غلام بنا دیا

قوم اب جاگ چکی ہے اللہ کی مدد سے
کچھ دل جلوں نے پوری قوم کو جگا دیا

اسلام میں مردعورت پرلازم ہے حصولِ تعلیم
تعلیم ہی کو کمال و زوال کا ذریعہ بنا دیا

نسلِ ابو جہل ہے علم سے بھاگنے والے
جہالت نے مولائیوں کو کیا سے کیا بنادیا

وہ لیڈر جو قوم کو تعلیم و آگہی سے ہٹا دے
افسوس ہے ایسوں کو قوم کا لیڈر بنا دیا

غنڈہ گردی زبردستی اور دھونس دھمکی کے ماحول نے
افسوس چند مکّاروں نے نوجوانوں کو اپنا آلہ کار بنا دیا

ہائے میرے دیس میں رائج سیاسی نظام نے
ہر ناسمجھ نوجوان کو زبردستی غنڈا بنا دیا

حرام خوری اور بھتّہ خوری کے اِس کلچر نے
میرے دیس کے ہر فرد کو یرغمال بنادیا

غنڈہ گردی اور بدمعاشی کی اب کوئی انتہا نہیں
قانون کی بے بسی نے مجرموں کوہیرو بنا دیا

“وَلَکُم فیِ القِصاصِ حَیاتِ یّا اُولیِ لاَلباب “ کی آیت
اِس آیت کی خلاف ورزی نے ملک کو جہنّم بنا دیا

اس قوم کی دعاؤں میں اب دم نہیں رہا
قدرت نے پھر سے اُسے وزیر اعظم بنا دیا

سُودی نظام جب ہوں دنیا میں چار سُو
کس طرح مولویوں نے خود کو فرشتہ بنا دیا

 

Rate it:
Views: 368
07 Jun, 2013
More Political Poetry
یہ وطن، یہ ہم ہر ذہن خستہ حال ہے یہ وطن
کہ تجھے ہم نے بنا دیا ہے تماشئہ سُخن
بھول گۓ سب وہ مقصد وہ عہدوفا
جس نے بنایا ہمیں ایک قوم، ایک صدا
یہ زمین جوایک کا نہیں، ہے سب کا مقام
پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان، ایک ہی ہے ہمارا نام
پُتلی تماشا ہے اصل بازی گروں کا یہ نظام
چھین لیتے ہیں سب کچھ جو نہ جھکیں ان کے سلام
حکمران سے لے کر سب کا یہی حال
فکر ہے تو بس جاگیر کی، نہ کوئی قومی خیال
ہر قبیلے میں بٹی قوم، زبانوں میں الجھی سوچ
کہ ہر ایک کہتا ہے
یہ خطہ میرا ہے، جیسے باقی سب کچھ ہو دوچ
نہ کبھی ہم اک زبان ہوۓ، نہ دل سے دل، نہ اک جان
ہم نے خود ہی توڑا ہے انقلاب کا ہر امکان
ہر 14 اگست میں کیوں نہ کہے" ہم آزاد ہیں، زندہ باد ہیں"
جب خود ظلم کے عادی ہو، غلامی پہ راضی ہو؟
اگر صرف تین بنیادی حق بھی نہ دے-
تعلیم، رہائش، اور تحفظ، ہر ایک کو، حکومت
تو پھر کس بات کی صدارت؟ کس بات کی وزارت؟
نہ یہ تخت تیرا تھا، نہ یہ وطن تیرا جائیداد
پھر کیوں ہم پر تمہیں مسلط کیا گیا بن ارشاد؟
سب قصوروار ہے
نہ صرف حکومت، نہ صرف عوام، سب کا کردار ہے
ہاتھوں سے اجاڑا ہے یہ چمن-
نہ کوئی اور آیا، نہ کوئی دوشمن، ہم ہی ہے وہ ظالم بن
خدارا! بانٹو نہ خود کو قوموں میں، مذاہب میں، دشمن کی چال پر
مت بھولو، اسی اتحاد پر ہمیں ملی تھی آزادی شام و سحر کے دام پر
اگر نہ بدلے، ہر فرد، ہر ادارہ
تو رہ جاۓ گا صرف ایک خاکہ، ایک قصہ، ایک خسارہ
 
نگین
قد آور آئینے ہمارا نام مسلماں، ادائیں کافر ہیں
حرام خور یہاں سارے لوگ ساغِر ہیں
یہاں وزارتِ عظمیٰ نشست بکتی ہے
جو ظاہراً تو بہت خوشگوار دِکھتی ہے
یہاں پہ جسم بکے، دل بکے، ضمیر بکے
وکیل و منصف و انصاف کیا، وزیر بکے
یہ وہ نگر ہے جہاں باپ بیچے بچوں کو
کہ بھیک مانگتے دیکھا ہے کتنی ماؤں کو
جو گھر میں آئے وہ مہمان بکتے دیکھے ہیں
کہ چند ٹکّوں پہ ایمان بکتے دیکھے ہیں
یہ وہ نگر ہے جہاں پر دیانتیں مفقود
فقط ہے مال بنانا عوام کا مقصود
جو حکمران ہیں بے شرم ہیں، یہ بے حس ہیں
سو محتسب بھی انہیں کے شریکِ مجلس ہیں
ادارے جو تھے وہ برباد ہوتے جاتے ہیں
نہیں ہے پیروی، ہم جن کا دن مناتے ہیں
سہولتیں تو یہاں کچھ نہیں میسر ہیں
بلوں پہ بل ہیں، یہاں حال سب کے ابتر ہیں
نہیں ہے گیس نہ بجلی نہ آب ملتا ہے
کریں جو شور تو روکھا جواب ملتا ہے
گرانیوں کا یہ عالم کہ لوگ مرنے لگے
کہ گھاٹیوں میں سبھی موت کی اترنے لگے
ہر ایک چہرے پہ زردی مَلی ملے گی یہاں
کلی بہار کی لگتا نہیں کھلے گی یہاں
وہ دیکھ ملک میں افلاس سر اٹھائے ہوئے
کہ ابر ظلم کے ہر سمت دیکھ چھائے ہوئے
یہ لوگ بھوک سے مجبور خود کشی پر ہیں
کہ دنگ ایسے میں حاکم کی بے حسی پر ہیں
یہ ملک جیسے کہیں پر پڑا ہے لوٹ کا مال
کسی کو روک سکے کب کسی میں ایسی مجال
سو لوٹنے میں لگا ہے یہاں پہ ہر کوئی
یہاں سے سکھ تو لیا سب نے بھوک ہے بوئی
بڑے نے چھوٹے کو محکوم کر کے رکھا تھا
نتیجہ دیکھ لیا سب نے یہ تعاصب کا
ہمارے لہجوں میں تلخی کا ذمہ دار ہے کون؟
امیرِ شہر نہیں ہے تو داغدار ہے کون؟
گلی گلی میں جو بکھرے ہوئے یہ لاشے ہیں
غلیظ چہرے پہ حاکم کے ہی طمانچے ہیں
بھریں یہ جیب، رعایا کو صرف ٹھینگا ہے
نظام سارا یہ آنکھوں سے گویا بھینگا ہے
ہوئے جو بعد میں آزاد سب عروج پہ ہیں
یہاں پہ دوش ہیں، الزام ایک دوج پہ ہیں
کوئی بھی کام یہاں سود بن نہیں ہوتا
جو ہوتا قائدِ اعظم تو آبگیں ہوتا
عدالتوں میں جو انصاف بکتا آیا ہے
یہ کام قائدِ اعظم کے زیرِ سایہ ہے
معالجوں کی طرف دیکھتے ہیں، روتے ہیں
یہ رقمیں لے کے بھی نیّا فقط ڈبوتے ہیں
اسی طرح سے ہو استاد یا کہ سوداگر
سبھی کے سب ہیں یہ جلّاد سارے فتنہ گر
ہو مولوی کہ ہو رنگ ساز اور زلف تراش
کہ پانیوں پہ ابھر آئے جیسے کوئی لاش
اگر تو دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے
دکان دار میں ایمان پایا جاتا ہے
وگرنہ زہر ہے بکتا بنامِ دودھ یہاں
کہ پی کے جسکو رہے گا کہیں نہ نام و نشاں
مٹھاس پھل میں بھریں لوگ کس سلیقے سے
کریں نہ ایسا تو یہ پھل ہیں پھیکے پھیکے سے
برادہ مرچ میں، پتی میں ڈالتے ہیں خون
بنا کے مال یہ جائیں گے جیسے دیرہ دون
یہ زلزلے کہ ہوں طوفان بے سبب تو نہیں
یہ سوچنا ہے کہ ناراض ہم سے ربّ تو نہیں
صحافیوں کی یہ فوجیں ہیں یا فسانہ نگار
یہ پتر کار یہ شاعر ادیب و شاہ سوار
کسی کو اپنے فرائض کا کچھ نہیں احساس
نہیں ہے چھوٹوں پہ شفقت، سفید ریش کا پاس
لگا ہے ہر کوئی اپنی دکاں بڑھانے میں
سپاہی فوج میں، پولیس اپنے تھانے میں
کرو گے کب تلک اس بات سے نظر پوشی
رہا نہ ملک تو ٹھہراؤ گے کسے دوشی
ابھی بھی وقت ہے خود اپنا احتساب کریں
کہ پورا ملک کی شادابیوں کا خواب کریں
رشیدؔ اپنا بھی کچھ احتساب ہے کہ نہیں؟
ذرا گناہ سے ہی اجتناب ہے کہ نہیں؟
رشید حسرت
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets