کُچھ یادوں کی زنجیریں سنبھال کر
ہیں میں بھی اپنے پاس رکھی ہوئی
کے اُنہیں بھی تو اپنی ذات میں شامل کر
جانے کب سے ہوں میں بھی اُلجھی ہوئی
کُچھ میرا بھی تو تم خیال کرو
ہے زندگی تیری بھی سُلجھی ہوئی
سانسیں اپنی امانت ہیں رکھی ہوئی
مُجھے بھی اپنی ذات پہ لازوال کر
دھڑکنوں پہ جان اپنی مسعود رکھی ہوئی
ہیں کُچھ یادیں جو اپنے پاس رکھی ہوئی