چلتے چلتے یوں ہی سفر کٹنے لگا
میں رواجوں میں اسطرح بٹنے لگا
پھر شب تنہائی نے مجھے آوازیں دیں
میں گلی کے موڑ سے یوں پلٹنے لگا
ساری سوچیں ایک کوزے میں بند رہیں
میں وقت کی بانہوں میں پھر سمٹنے لگا
سارے سائے دور تھے اور میں تھا تنہا
سر سے آسماں پھر یوں ہی ہٹنے لگا
پھر کیا تقدیر نے بھی اک فیصلہ
میں صحراؤں میں اس طرح بھٹکنے لگا