کچھ اور تھا

Poet: By: رشید حسرت, کوئٹہ

ہم یہاں کے ہو لیئے پر کام تو کچھ اور تھا
پا لیا سکھ بھی، مگر الزام تو کچھ اور تھا

دیکھ تیری ضد کے آگے ہم تو جھکنے سے رہے
کیا ہؤا ہے صبح، اے دل! شام تو کچھ اور تھا

اس نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیا قاصد تجھے
آتے آتے کیا ہؤا، پیغام تو کچھ اور تھا

لوٹتے ہیں گاہکوں کو سامنے والے بھی تو
اُس نے مانگا اور، اُس پر دام تو کچھ اور تھا

اب کے اس نے بھی بدل ڈالا ہے اندازِ کلام
جو ہمیں دیتا رہا، دُشنام تو کچھ اور تھا

کتنی چاہت سے پکا کر وہ کھلاتا تھا ہمیں
ہم اُسے کرموؔ بلاتے، نام تو کچھ اور تھا

اب حکومت نے نوازا، ماں سے پاتے تھے کبھی
ایک آنہ بھی اگر انعام تو کچھ اور تھا

اب بھی سر میں تیل بیوی ڈال دیتی ہے کبھی
ماں کے ہاتھوں میں مگر آرام تو کچھ اور تھا

جب تلک ساقی کے قبضے میں تھا صورت اور تھی
آ گیا ہاتھوں میں اپنے جام، تو کچھ اور تھا

آم پیلے بھی بہت اچھے تھے بچپن میں، مگر
اور کوئی ان میں ہوتا خام تو کچھ اور تھا

تو نے خود کو خاص کر کے اپنا کھویا ہے وقار
جب تلک رکھا تھا فیضِ عام تو کچھ اور تھا

ہم کتابوں میں پڑے سوکھے گلابوں میں رہے
زرد پتوں کا ہؤا الہام تو کچھ اور تھا

ہم نے جب جا کر خریدا ایک کپڑا تھا رشیدؔ
اور جب باندھا اسے (احرام) تو کچھ اور تھا
 

Rate it:
Views: 372
03 Sep, 2024
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL