کچھ بات ہے كے آج خیال یار آیا
ایک بار نہی بلکہ بار بار آیا
بھول چکا تھا سب چوٹیں دِل کی
یہ کیا كے پِھر وہ زخم فگار آیا
وہ زمانے کی سازش ، وہ اپنوں کا ستم
کچھ نہیں بس یاد اک اک وار آیا
بتائے تو کوئی جا كے کوئی صاحب کو
چلتے چلتے یہاں تک اس کا طلبگار آیا
عاؔمر نہ کر جیت کی لگن اب
جانے کب کا ہے تو ہار آیا