Add Poetry

کچھ بھی نہیں رہا ہے عہد وفا کہ تھا

Poet: ضرار By: ضرار, Sargodha

کچھ بھی نہیں رہا ہے عہد وفا کہ تھا
دلی جو شہر دل تھا جو کچھ بھی تھا کہ تھا

ثابت نہیں کسی سے اک زاویہ کہ تھا
ثابت کی ہر کمی سے ثابت ہوا کہ تھا

سب کو ملا مسیحا سب سے نہیں ملا
کچھ کا تڑپ کے مرنا اک فیصلہ کہ تھا

جب بھی وہی خدا تھا اب بھی وہی خدا
اک تھا خدا نہیں تھا اک ہے خدا کہ تھا

جاتے ہیں سب فلک کو آئے فلک سے کچھ
اک سلسلہ ہے جاری اک سلسلہ کہ تھا

آنکھیں بھی رقص میں تھیں رومی بھی رقص میں
بس رقص رہ گیا ہے اک فلسفہ کہ تھا

تیرا سراب چہرہ صحرائے وقت میں
لگتا رہا نہیں ہے دکھتا رہا کہ تھا

مدھم سی روشنی تھی ہلکا سا چاند تھا
دل کو سکون عامرؔ آنسو بہا کہ تھا

Rate it:
Views: 2
10 Feb, 2025
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets