کچھ بھی نہیں رہا ہے عہد وفا کہ تھا
دلی جو شہر دل تھا جو کچھ بھی تھا کہ تھا
ثابت نہیں کسی سے اک زاویہ کہ تھا
ثابت کی ہر کمی سے ثابت ہوا کہ تھا
سب کو ملا مسیحا سب سے نہیں ملا
کچھ کا تڑپ کے مرنا اک فیصلہ کہ تھا
جب بھی وہی خدا تھا اب بھی وہی خدا
اک تھا خدا نہیں تھا اک ہے خدا کہ تھا
جاتے ہیں سب فلک کو آئے فلک سے کچھ
اک سلسلہ ہے جاری اک سلسلہ کہ تھا
آنکھیں بھی رقص میں تھیں رومی بھی رقص میں
بس رقص رہ گیا ہے اک فلسفہ کہ تھا
تیرا سراب چہرہ صحرائے وقت میں
لگتا رہا نہیں ہے دکھتا رہا کہ تھا
مدھم سی روشنی تھی ہلکا سا چاند تھا
دل کو سکون عامرؔ آنسو بہا کہ تھا