ہیں آشناں بھی اجنبی
نفرتوں کی آڑ میں
سب کی زندگی ہے رواں دواں
خود غرضیوں کے مدار میں
کوئی منزلوں سے ہے بے خبر
کوئی راستوں میں بھٹک رہا
کوئی رب سے نہیں مانگتا
یا تڑپ نہیں ہے پُکار میں
جو لکھا ہوا وہی پا رہا
نا غرور کر کسی بات پر
تیرا پھولوں سے گزر ہوا
میں چل رہا ہوں خار میں
تُو شُکر کر ہر حال میں
یہ قدرت کے ہیں فیصلے
کوئی سیر ہوا خزاں میں بھی
کوئی اُجڑ گیا بہار میں
چار دن کی زندگی
ہم نے رب کو بھلا کر گزار دی
کچھ حسرتوں میں گزر گئی
کچھ کٹ رہی انتظار میں