باتیں ہوتی ہیں سادہ سی
کچھ سمجھیں موٹی ہوتی ہیں
کچھہ غلط فہمیاں ہمارے بیچ
بیج نفرت کے بوتی ہیں
ہم یادوں سے زخم کریدتے ہیں
پھر آنکھیں انکو دھوتی ہیں
وقت کب الٹا چلتا ہے
گئی ساعتیں واپس کب لوٹی ہیں
کچھ خواہشوں پہ ہم روتے ہیں
کچھ خواہشیں ہم پہ روتی ہیں
کچھ فکروں کا بوجھ زیادہ ہے
کچھ عمریں بہت ہی چھوٹی ہیں
کیا انجام کو پہنچے کام کوئی
جب نیتیں سب کی کھوٹی ہیں
عثمان اک عمر کے بعد معلوم ہوا
کٹی پتنگیں کیوں بے بس ہوتی ہیں