کچھ دئیے ہمیں جلا کے بُجھانے پڑے
کچھ زخم خود لے کے دُکھانے پڑے
بیڑا غرق ہو اِ س زمانے کا
اِسی سے تنگ آ کر اپنے بُھلانے پڑے
مگر وہ بھولے کہاں ہیں ہمیں
اب شاعری میں لا کر چُھپانے پڑے
بھلا کدھر بھیجتے پیار کی نشانیوں کو
نس نس میں اپنی درد سمانے پڑے
کتنی ناکام اُمیدوں کے چراغ جلائے
کتنے ہی رنج سر پہ اُٹھانے پڑے
کچھ ضمیر بھی اپنا سو گیا تھا شاید
کچھ غیروں کی باتوں سے آزمانے پڑے
کچھ بُزدل تھے ہم نشیں بھی ادبار میں
کہ برسوں کے یارانے بھی انجانے پڑے
سُراغ نہ لگ سکا جینے کا کوئی
اِسے پانے کتنے دیوانے پڑے