کچھ سوچ کے پابند زباں کھول رہا ہوں
جو کہنا ہے اب مجھ کو اُسے تول رہا ہوں
لفظوں کا ستم جاری ہے سوچوں کے بند پر
ہنستے ہوئے آہوں کی زباں بول رہا ہوں
تو بادِ سحر کا رہا ہوگا کوئی جھونکا
خوشبو کی طرح میں بھی تو انمول رہا ہوں
تو سامنے آیا تو لگی مہر لبوں پر
مجبور ہوا ہوں تو بھرم کھول رہا ہوں