کچھ طبعیت خاموش ۔ کچھ حالات نے خاموش کر دیا
وہ بے گناہ کیسا شخص تھا جسے زمانے نے چور کر دیا
کہا سے آئی ہوا ۔ اور کہا جانا تھا ُاس کو
کوئی سمجھا ہی نہیں اور دروازے کو بند کر دیا
احساس ندامت ُاسے اب تک نہ ہوا لکی
جس پر خدا نے خوشیوں کا گھر کر دیا
وہ خاموشی کی چارد اوٹھ کر ایسے بیٹھا رہا محفل میں
جیسے ُاسے مانگے میں کسی نے آخری سجدہ بھی قضا کر دیا
روح تو پیاسی ہیں اک عمر سے میری پر میں ُاس سے اسی کو
کیسے مانگوں ۔ جس نے اورو پے محبت لٹاتے سحر کر دیا
کب آیا خیال جو ، اب آئے گا
شاید میں نے ہی ُامیدوں سے زندگی کو نم کر دیا
کیا ہیں زندگی کی راہیں ، جو سمجھ ہی نہیں آتی لکی
میں نے راہوں کو یا راہوں نے مجھے بےبس کر دیا