کیا پوچھتے ہو عشق نے کیا کیا دیا نہیں
بڑھ کر جنوں سے اور کوئی معجزہ نہیں
کچھ لوگ محبت کو بھی گردانتے ہیں جرم
کچھ بھی نہ کیا جرم یہ جسنے کیا نہیں
سیکھا ہی نہیں مانگنا تیرے بغیر کچھ
جس میں نہیں ہو تم ، کوئی ایسی دعا نہیں
لمحے میں تھم گئی ہیں ستاروں کی گردشیں
میں نے تو ابھی وقت سے کچھ بھی کہا نہیں
اک تھی سمے کی لہر جو اٹھ کر فنا ہوئی
اک یہ سیلاب اشک کہ اب تک رکا نہیں
میری متاع ناز فقط بندگی تو ہے
اس ناز نے مجھکو کبھی گرنے دیا نہیں
اے پردہ نشیں خاک نشینوں کی بات مان
ہے کونسا وہ راز جو ہم پر کھلا نہیں