کچھ مسافر متلاشی نئی راہوں کے ملیں گے
زندگی کےراستوں میں کئی موڑآکہ ملیں گے
خوابوں کی تعبیریں سب جھوٹی نکلیں گی
ہزاروں خواہش وارماں مٹی کےڈھیرملیں گے
نہ کوئی طرب کاموسم نہ غم حیات سےفرصت
اکیلامیں نہیں ہزاروں ایسےہی ملیں گے
کھلتےہی خوشبوجسکی ہرسمت پھیل جائے
پھرایسےہی حسین پھول بکھرےبھی ملیں گے
تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لے
کئی باب رقم پرانےفسانےہی ملیں گے
ایسےنہ دیکھ نظریں ملاکردیکھنےوالے
ان آنکھوں میں ظالم وقت کےنظاریں ہی ملیں گے
اے عائش اس اامیدپرجیناھےاب کہ
رواں وقت میں پہلےکیطرح پھرسےملیں گے