کچھ نہیں اور تیرے ساتھ سوا چاہیے
اب مجھے مَے نہیں میکدہ چاہیے
ایک دن تجھ سے ملنے ضرور آؤں گا
زندگی مجھ کو تیرا پتا چاہیے
گھر کی دہلیز پر چاند سویا نہ ہو
صبح ہونے کو ہے لوٹنا چاہیے
اس زمانے نے لوگوں کو سمجھا دیا
تم کو آنکھیں نہیں آئینہ چاہیے
یہ زمیں آسماں کچھ نئے تو لگیں
مجھ کو ایسی نظر اے خُدا چاہیے
تم سے میری کوئی دشمنی تو نہیں
سامنے سے ہٹو، راستہ چاہیے