صبح روشن کیلیے کچھ چراغ بجھانے ہونگے
خوابیدہ پرندے درختوں سے اڑانے ہونگے
جبیں پہ سجایے ہوئے غیرت کی تجلی
بوسیدہ فلک پہ کچھ چاند شرمانے ہونگے
گرنے نہ پائے ایک آنسو بھی یہاں اب
بدن کے زخم اب روح سے چھپانے ہونگے
بکھریں گی یہاں نے دور کی رنگینیاں
درختوں سے پرانے پتے گرانے ہونگے
ہوگا حساب یہاں اب روز جزا کی طرح
قبروں سے سارے کتبےاب اٹھانے ہونگے
اس گھرکی تاریکیاں ایسے نہیں جائیں گی
ہر دیوار پہ یہاں چراغ طور جلانے ہونگے