کڑی تھی آنچ غموں کی پگھل گیا ہو گا
وہ اپنے سارے حوالے بدل گیا ہوگا
تلاش تھی اُسے آزاد رہگزاروں کی
وہ قیدِ ہوش سے کب کا نکل گیا ہوگا
بدل گئے ہیں جو اپنے مزاج کے موسم
میں سوچتا ہوں وہ کتنا بد ل گیا ہوگا
وہی چبھن تھی، وہیں تھی، جو کوئی یاد آیا
ہمیں گمان تھا کانٹا نکل گیا ہوگا
وہ حسن آج بھی ویسا ہی ہوگا تابندہ
وہ مہر و ماہ نہیں ہے کہ ڈھل گیا ہوگا