زندگی مجھکو تمنا کا گھر لگتی ہے
کھبی ویران سے مندر کا شجر لگتی ہے
بٹ گئ یعمر کی دستار تمناؤں میں
اور چادر مری دینا کو زہر لگتی ہے
دل کی چوکھٹ ہوئی تقسئیم دریچوں مین کئ
ہائے چاہت تو بہت اپنا اثر رکھتی ہے
درِ الفت پہ چراغوں کی ضرورت ہی نہیں
اس کی خصلت تو عیاں اپنا سحر رکھتی ہے
جب ساقی ہے سرِ بزم کوئی وشمہ غزل
در حقیقت اسے اس شام نظر لگتی ہے