اپنی قسمت سے ہے مجھ کو یہ گلہ
تو شریک زندگی نہ ہو سکا
در بدر پھرتا ہوں تیری یاد میں
ایک مدت سے نہیں میں سو سکا
میں نے تجھ کو بھولنا چاہا مگر
بھولنا تجھ کو کہاں آسان ہے
میری دلہن بن کے میرے پاس ہو
آج بھی دل میں یہی ارمان ہے
رات کی تاریکیوں میں جاگ کر
خواب کیسے دیکھتا رہتا ہوں میں
تیرا ملنا میری قسمت میں نہیں
پھر بھی تجھ کو ڈھونڈتا رہتا ہوں میں
تلخیاں ہیں زند گی میں اس قدر
مجھ کو جینے کی نہیں ہے آرزو
کس کے دامن پہ گراؤں آج میں
میری آنکھوں سے جو بہتا ہے لہو
خواب لگتے ہیں رفاقت کے وہ دن
زیست تنہائی کا اب اک بحر ہے
تیرے ہونٹوں کی حلا وت کھو گئی
آج پینے کو مرے بس زہر ہے
آ مری اجڑی ہوئی دنیا کو دیکھ
تو تو ہے آباد میں برباد ہوں
میرے ویرانے میں اب کچھ بھی نہیں
کھو کے تجھ کو کس قدر ناشاد ہوں