کھول کر دل ملا کرے کوئی
ہم سے کیوں فاصلہ کرے کوئی
ترکِ الفت میں درد ہوتا ہے
سوچ کر فیصلہ کرے کوئی
کوئے قاتل میں سیر ممکن ہے
ہاں مگر حوصلہ کرے کوئی
عمر بھر ہم نے سبکو لوٹا ہے
کیوں ہمارا بھلا کرے کوئی
ناز ہے ہم غلامَ احمدہیں
گر ہے ظالم، ہؤا کرے کوئی
سر پٹکتے رہیں گے ہم تب تک
جب تلک در نہ وا کرے کوئی
عادتاً شمع ہم جلاتے ہیں
اب تو آکے ہوا کرے کوئی
آئے افلاس کے مرض میں کمی
کاش ایسی دوا کرے کوئی
مجھ تلک ہے رسائ گر مقصد
نقشِ پا، رہنما کرے کوئی
اسکی فطرت میں بے ایمانی ہے
شمسؔ فطرت کو کیا کرے کوئی