یہ تو ہوگا، گھر سے نکالا جاؤں گا
کھوٹا سکہ ہوں سو اچھالاجاؤں گا
لا پھینکے گا دریا ویرانے میں مجھے
میں وہ کہاں کہ محل میں پالا جاؤں گا
صاحب! مجھ سے بات نہ کرنا رشتوں کی
یوں بکھروں گا نہیں سنبھالا جاؤں گا
ایسا ایک سوال ہوں جس سے پوچھوگے
بات بدل دی جائے گی، ٹالا جاؤں گا
بھائی مہرباں، اور یہ سوچ رہا ہوں میں
کنوئیں میں پھینکا، قید میں ڈالا جاؤں گا