کھیتوں کی ہریالی
بات کچھ نہ تھی
بات لوگوں نے بنا لی
سانپ زہریلے تھے
تیرے گھر تک
راستے پتھریلے تھے
پھول گلابوں کے
گیت گائے جاتا ہوں
تیرے شبابوں کے
چاند راتوں کا
کیوں ٹوٹ گیا
سلسلہ ملاقاتوں کا
موسم برسات کا
بھولا نہیں بچھڑنا
تیرا اس رات کا
موسم انگوروں کا
کبھی پوچھ لیا کرو
حال مجبوروں کا
دامن سی لیا
جیسے بھی ہو سکا
ہم نے جی لیا
گلیاں گاؤں کی
باتیں بھولی نہیں مجھے
پیپل کی چھاؤں کی
پھول کتابوں کے
قصے بھولتے کیسے
گزرے شبابوں کے
بات خزاؤں کی
جگہ کون لے بھلا
مری ہوئی ماؤں کی
پھولوں کے گلدستے
کس طرح اجڑ گئے
گھر وہ ہنستے بستے
پتے درختوں کے
رنگ سارے بدل گئے
کیوں تیری محبتوں کے