کہتے ہیں، ان کو بت نہ کہوں میں، خدا کہوں
پھر ضد یہ ہے کہ کھل کے کہوں ، برملا کہوں
تم سے تھی اک امید سو وہ بھی نہیں رہی
اب کس کو مہربان کہوں ، با وفا کہوں
گردوں خلاف ، بخت مخالف ، وہ بد گماں
کس سے یہ دل کا حال کہوں اور کیا کہوں
امید لطف ہو تو ہلاؤں زبان بھی
گر جان کی امان ملے، مدعا کہوں
پہلو میں رات دن ہے قیامت سی اک بپا
آفت کہوں، عذاب کہوں، دل کو کیا کہوں
نسبت ہے مجھ کو مہر علی شاہ سے نصیر
ذرے کو آفتاب سے کیوں کر جدا کہوں