کہتے ہیں باغی مجھ کو زمانے والے
کہ یہ طور نہیں زندگی نبھانے والے
ٹوٹا بھی تو بکھرنے نہیں دیا خود کو
پچھتائے ہر بار مجھے آزمانے والے
دیکھا ہے کبھی تو نے پردوں کے پیچھے؟
روتے ہیں کس قدر دنیا کو ھنسانے والے
نہ لے اسقدر میرے صبر کا امتحاں
روئےگا بہت تو مجھ کو ستانے والے
میرے جنوں کی حدت سے اک آگ ہے ہر سو
جل نہ جائے تو ہی کہیں مجھ کو بجھانے والے
مجھ سے گریزاں ہیں اپنے بھی پرائے بھی
آتے کہاں ہیں مجھ کو وہ ہنر منانے والے
کہتے ہیں باغی مجھ کو زمانے والے
کہ یہ طور نہیں زندگی نبھانے والے